Sahih Bukhari Hadith No 5197 in Urdu

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے، انہیں عطاء بن یسار نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے بیان کیا کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ اس کی نماز پڑھی۔ آپ نے بہت لمبا قیام کی اتنا طویل کہ سورۃ البقرہ پڑھی جا سکے پھر طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سر اٹھا کر بہت دیر تک قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر آپ نے دوسرا طویل رکوع کیا۔ یہ رکوع طوالت میں پہلے رکوع سے کچھ کم تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ کیا۔ پھر دوبارہ قیام کیا اور بہت دیر تک حالت قیام میں رہے۔ یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر طویل رکوع کیا، یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور طویل قیام کیا۔ یہ قیام پہلے قیام سے کچھ کم تھا۔ پھر رکوع کیا، طویل رکوع۔ اور یہ رکوع پہلے رکوع سے کچھ کم طویل تھا۔ پھر سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو گرہن ختم ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ ان میں گرہن کسی کی موت یا کسی کی حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی جگہ سے کوئی چیز بڑھ کر لی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ آپ ہم سے ہٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تھی یا ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راوی کو شک تھا ) مجھے جنت دکھائی گئی تھی۔ میں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا اور اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے اور میں نے دوزخ دیکھی آج کا اس سے زیادہ ہیبت ناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ اس میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور ان کے احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی ایک کے ساتھ زندگی بھر بھی حسن سلوک کا معاملہ کرو پھر بھی تمہاری طرف سے کوئی چیز اس کے لیے ناگواری خاطر ہوئی تو کہہ دے گی کہ میں نے تو تم سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5196 in Urdu

ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو تیمی نے خبر دی، انہیں ابوعثمان نے، انہیں اسامہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ   میں جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوا تو اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت غریبوں کی تھی۔ مالدار ( جنت کے دروازے پر حساب کے لیے ) روک لیے گئے تھے البتہ جہنم والوں کو جہنم میں جانے کا حکم دے دیا گیا تھا اور میں جہنم کے دروازے پر کھڑا ہوا تو اس میں داخل ہونے والی زیادہ عورتیں تھیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5195 in Urdu

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر ( نفلی ) روزہ رکھے اور عورت کسی کو اس کے گھر میں اس کی مرضی کے بغیر آنے کی اجازت نہ دے اور عورت جو کچھ بھی اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی صریح اجازت کے بغیر خرچ کر دے تو اسے بھی اس کا آدھا ثواب ملے گا۔ اس حدیث کو ابوالزناد نے موسیٰ بن ابی عثمان سے بھی اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور اس میں صرف روزہ کا ہی ذکر ہے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5194 in Urdu

ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے زرارہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عورت اپنے شوہر سے ناراضگی کی وجہ سے اس کے بستر سے الگ تھلگ رات گزارنے تو فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت بھیجتے ہیں جب تک وہ اپنی اس حرکت سے باز نہ آ جائے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5193 in Urdu

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے ( ناراضگی کی وجہ سے ) انکار کر دے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5192 in Urdu

ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شوہر گھر پر موجود ہے تو کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر ( نفلی ) روزہ نہ رکھے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5191 in Urdu

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن ابی ثور نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ   بہت دنوں تک میرے دل میں خواہش رہی کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو بیویوں کے متعلق پوچھوں جن کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل کی تھی۔ «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما‏» الخ۔ ایک مرتبہ انہوں نے حج کیا اور ان کے ساتھ میں نے بھی حج کیا۔ ایک جگہ جب وہ راستہ سے ہٹ کر ( قضائے حاجت کے لیے ) گئے تو میں بھی ایک برتن میں پانی لے کر ان کے ساتھ راستہ سے ہٹ گیا۔ پھر انہوں نے قضائے حاجت کی اور واپس آئے تو میں نے ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انہوں نے وضو کیا تو میں نے اس وقت ان سے پوچھا کہ یا امیرالمؤمنین! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں وہ کون ہیں جن کے متعلق اللہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ «إن تتوبا إلى الله فقد صغت قلوبكما‏» عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا اے ابن عباس! تم پر حیرت ہے۔ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے تفصیل کے ساتھ حدیث بیان کرنی شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ میں اور میرے ایک انصاری پڑوسی جو بنو امیہ بن زید سے تھے اور عوالی مدینہ میں رہتے تھے۔ ہم نے ( عوالی سے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے باری مقرر کر رکھی تھی۔ ایک دن وہ حاضری دیتے اور ایک دن میں حاضری دیتا، جب میں حاضر ہوتا تو اس دن کی تمام خبریں جو وحی وغیرہ سے متعلق ہوتیں لاتا ( اور اپنے پڑوسی سے بیان کرتا ) اور جس دن وہ حاضر ہوتے تو وہ بھی ایسے کرتے۔ ہم قریشی لوگ اپنی عورتوں پر غالب تھے لیکن جب ہم مدینہ تشریف لائے تو یہ لوگ ایسے تھے کہ عورتوں سے مغلوب تھے، ہماری عورتوں نے بھی انصار کی عورتوں کا طریقہ سیکھنا شروع کر دیا۔ ایک دن میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی میرا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے اس کے اس طرح جواب دینے پر ناگواری کا اظہار کیا تو اس نے کہا کہ میرا جواب دینا تمہیں برا کیوں لگتا ہے، اللہ کی قسم! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج بھی ان کو جوابات دے دیتی ہیں اور بعض تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دن رات تک الگ رہتی ہیں۔ میں اس بات پر کانپ اٹھا اور کہا کہ ان میں سے جس نے بھی یہ معاملہ کیا یقیناً وہ نامراد ہو گئی۔ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور ( مدینہ کے لیے ) روانہ ہوا پھر میں حفصہ کے گھر گیا اور میں نے اس سے کہا: اے حفصہ! کیا تم میں سے کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایک دن رات تک غصہ رہتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں کبھی ( ایسا ہو جاتا ہے ) میں نے اس پر کہا کہ پھر تم نے اپنے آپ کو خسارہ میں ڈال لیا اور نامراد ہوئی۔ کیا تمہیں اس کا کوئی ڈر نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی وجہ سے اللہ تم پر غصہ ہو جائے اور پھر تم تنہا ہی ہو جاؤ گی۔ خبردار! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبات نہ کیا کرو نہ کسی معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیا کرو اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا کرو۔ اگر تمہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھ سے مانگ لیا کرو۔ تمہاری سوکن جو تم سے زیادہ خوبصورت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے زیادہ پیاری ہے، ان کی وجہ سے تم کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا ہو جانا۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ ملک غسان ہم پر حملہ کے لیے فوجی تیاریاں کر رہا ہے۔ میرے انصاری ساتھی اپنی باری پر مدینہ منورہ گئے ہوئے تھے۔ وہ رات گئے واپس آئے اور میرے دروازے پر بڑی زور زور سے دستک دی اور کہا کہ کیا عمر رضی اللہ عنہ گھر میں ہیں۔ میں گھبرا کر باہر نکلا تو انہوں نے کہا کہ آج تو بڑا حادثہ ہو گیا۔ میں نے کہا کیا بات ہوئی، کیا غسانی چڑھ آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، حادثہ اس سے بھی بڑا اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ حفصہ تو خاسر و نامراد ہوئی۔ مجھے تو اس کا خطرہ لگا ہی رہتا تھا کہ اس طرح کا کوئی حادثہ جلد ہی ہو گا پھر میں نے اپنے تمام کپڑے پہنے ( اور مدینہ کے لیے روانہ ہو گیا ) میں نے فجر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی ( نماز کے بعد ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک بالا خانہ میں چلے گئے اور وہاں تنہائی اختیار کر لی۔ میں حفصہ کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھی۔ میں نے کہا اب روتی کیا ہو۔ میں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بالا خانہ میں تنہا تشریف رکھتے ہیں۔ میں وہاں سے نکلا اور منبر کے پاس آیا۔ اس کے گرد کچھ صحابہ کرام موجود تھے اور ان میں سے بعض رو رہے تھے۔ تھوڑی دیر تک میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ اس کے بعد میرا غم مجھ پر غالب آ گیا اور میں اس بالا خانہ کے پاس آیا۔ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حبشی غلام سے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے لیے اندر آنے کی اجازت لے لو۔ غلام اندر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر کے واپس آ گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا ذکر کیا لیکن آپ خاموش رہے۔ چنانچہ میں واپس چلا آیا اور پھر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا جو منبر کے پاس موجود تھے۔ میرا غم مجھ پر غالب آیا اور دوبارہ آ کر میں نے غلام سے کہا کہ عمر کے لیے اجازت لے لو۔ اس غلام نے واپس آ کر پھر کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ کا ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں پھر واپس آ گیا اور منبر کے پاس جو لوگ موجود تھے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ لیکن میرا غم مجھ پر غالب آیا اور میں نے پھر آ کر غلام سے کہا کہ عمر کے لیے اجازت طلب کرو۔ غلام اندر گیا اور واپس آ کر جواب دیا کہ میں نے آپ کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ میں وہاں سے واپس آ رہا تھا کہ غلام نے مجھ کو پکارا اور کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اجازت دے دی ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس بان کی چارپائی پر جس سے چٹائی بنی جاتی ہے لیٹے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی بستر نہیں تھا۔ بان کے نشانات آپ کے پہلو مبارک پر پڑے ہوئے تھے۔ جس تکیہ پر آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس میں چھال بھری ہوئی تھی۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کھڑے ہی کھڑے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے اپنی ازواج کو طلاق دے دی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا نہیں۔ میں ( خوشی کی وجہ سے ) کہہ اٹھا۔ اللہ اکبر۔ پھر میں نے کھڑے ہی کھڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے ہم قریش کے لوگ عورتوں پر غالب رہا کرتے تھے۔ پھر جب ہم مدینہ آئے تو یہاں کے لوگوں پر ان کی عورتیں غالب تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرا دیئے۔ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے میں حفصہ کے پاس ایک مرتبہ گیا تھا اور اس سے کہہ آیا تھا کہ اپنی سوکن کی وجہ سے جو تم سے زیادہ خوبصورت اور تم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز ہے، دھوکا میں مت رہنا۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ مسکرا دیئے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسکراتے دیکھا تو بیٹھ گیا پھر نظر اٹھا کر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا جائزہ لیا۔ اللہ کی قسم! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس پر نظر رکتی۔ سوا تین چمڑوں کے ( جو وہاں موجود تھے ) میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ آپ کی امت کو فراخی عطا فرمائے۔ فارس و روم کو فراخی اور وسعت حاصل ہے اور انہیں دنیا دی گئی ہے حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک ٹیک لگائے ہوئے تھے لیکن اب سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ابن خطاب! تمہاری نظر میں بھی یہ چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، یہ تو وہ لوگ ہیں جنہیں جو کچھ بھلائی ملنے والی تھی سب اسی دنیا میں دے دی گئی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کر دیجئیے ( کہ میں نے دنیاوی شان و شوکت کے متعلق یہ غلط خیال دل میں رکھا ) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو اسی وجہ سے انتیس دن تک الگ رکھا کہ حفصہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز عائشہ سے کہہ دیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک مہینہ تک میں اپنی ازواج کے پاس نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بہت رنج ہوا ( اور آپ نے ازواج سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ) پھر جب انتیسویں رات گزر گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور آپ سے ابتداء کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے قسم کھائی تھی کہ ہمارے یہاں ایک مہینہ تک تشریف نہیں لائیں گے اور ابھی تو انتیس ہی دن گزرے ہیں میں تو ایک ایک دن گن رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس کا ہے۔ وہ مہینہ انتیس ہی کا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آیت «تخير» نازل کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج میں سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے ( اور مجھ سے اللہ کی وحی کا ذکر کیا ) تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پسند کیا۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام دوسری ازواج کو اختیار دیا اور سب نے وہی کہا جو عائشہ رضی اللہ عنہا کہہ چکی تھیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5190 in Urdu

ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ   کچھ فوجی کھیل کا نیزہ بازی سے مظاہرہ کر رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنے جسم مبارک سے ) میرے لیے پردہ کیا اور میں وہ کھیل دیکھتی رہی۔ میں نے اسے دیر تک دیکھا اور خود ہی اکتا کر لوٹ آئی۔ اب تم خود سمجھ لو کہ ایک کم عمر لڑکی کھیل کو کتنی دیر تک دیکھ سکتی ہے اور اس میں دلچسپی لے سکتی ہے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5189 in Urdu

ہم سے سلیمان بن عبدالرحمٰن اور علی بن حجر نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، اس نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے   انہوں نے کہا کہ گیارہ عورتوں کا ایک اجتماع ہوا جس میں انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ مجلس میں وہ اپنے اپنے خاوند کا صحیح صحیح حال بیان کریں کوئی بات نہ چھپاویں۔ چنانچہ پہلی عورت ( نام نامعلوم ) بولی میرے خاوند کی مثال ایسی ہے جیسے دبلے اونٹ کا گوشت جو پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہوا ہو نہ تو وہاں تک جانے کا راستہ صاف ہے کہ آسانی سے چڑھ کر اس کو کوئی لے آوے اور نہ وہ گوشت ہی ایسا موٹا تازہ ہے جسے لانے کے لیے اس پہاڑ پر چڑھنے کی تکلیف گوارا کرے۔ دوسری عورت ( عمرہ بنت عمرو تمیمی نامی ) کہنے لگی میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک بیان کروں ( اس میں اتنے عیب ہیں ) میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے اور چھپے سارے عیب بیان کر سکتی ہوں۔ تیسری عورت ( حیی بنت کعب یمانی ) کہنے لگی، میرا خاوند کیا ہے ایک تاڑ کا تاڑ ( لمبا تڑنگا ) ہے اگر اس کے عیب بیان کروں تو طلاق تیار ہے اگر خاموش رہوں تو ادھر لٹکی رہوں۔ چوتھی عورت ( مہدو بنت ابی ہرومہ ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ملک تہامہ کی رات کی طرح معتدل نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا نہ اس سے مجھ کو خوف ہے نہ اکتاہٹ ہے۔ پانچوں عورت ( کبشہ نامی ) کہنے لگی کہ میرا خاوند ایسا ہے کہ گھر میں آتا ہے تو وہ ایک چیتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو شیر ( بہادر ) کی طرح ہے۔ جو چیز گھر میں چھوڑ کر جاتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں ( کہ وہ کہاں گئی؟ ) اتنا بےپرواہ ہے جو آج کمایا اسے کل کے لیے اٹھا کر رکھتا ہی نہیں اتنا سخی ہے۔ چھٹی عورت ( ہند نامی ) کہنے لگی کہ میرا خاوند جب کھانے پر آتا ہے تو سب کچھ چٹ کر جاتا ہے اور جب پینے پر آتا ہے تو ایک بوند بھی باقی نہیں چھوڑتا اور جب لیٹتا ہے تو تنہا ہی اپنے اوپر کپڑا لپیٹ لیتا ہے اور الگ پڑ کر سو جاتا ہے میرے کپڑے میں کبھی ہاتھ بھی نہیں ڈالتا کہ کبھی میرا دکھ درد کچھ تو معلوم کرے۔ ساتویں عورت ( حیی بنت علقمہ ) میرا خاوند تو جاہل یا مست ہے۔ صحبت کے وقت اپنا سینہ میرے سینے سے اوندھا پڑ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے عیب لوگوں میں ایک ایک کر کے جمع ہیں وہ سب اس کی ذات میں جمع ہیں ( کم بخت سے بات کروں تو ) سر پھوڑ ڈالے یا ہاتھ توڑ ڈالے یا دونوں کام کر ڈالے۔ آٹھویں عورت ( یاسر بنت اوس ) کہنے لگی میرا خاوند چھونے میں خرگوش کی طرح نرم ہے اور خوشبو میں سونگھو تو زعفران جیسا خوشبودار ہے۔ نویں عورت ( نام نامعلوم ) کہنے لگی کہ میرے خاوند کا گھر بہت اونچا اور بلند ہے وہ قدآور بہادر ہے، اس کے یہاں کھانا اس قدر پکتا ہے کہ راکھ کے ڈھیر کے ڈھیر جمع ہیں۔ ( غریبوں کو خوب کھلاتا ہے ) لوگ جہاں صلاح و مشورہ کے لیے بیٹھتے ہیں ( یعنی پنچائت گھر ) وہاں سے اس کا گھر بہت نزدیک ہے۔ دسویں عورت ( کبشہ بنت رافع ) کہنے لگی میرے خاوند کا کیا پوچھنا جائیداد والا ہے، جائیداد بھی کیسی بڑی جائیداد ویسی کسی کے پاس نہیں ہو سکتی بہت سارے اونٹ جو جابجا اس کے گھر کے پاس جٹے رہتے ہیں اور جنگل میں چرنے کم جاتے ہیں۔ جہاں ان اونٹوں نے باجے کی آواز سنی بس ان کو اپنے ذبح ہونے کا یقین ہو گیا۔ گیارھویں عورت ( ام زرع بنت اکیمل بنت ساعدہ ) کہنے لگی میرا خاوند ابوزرع ہے اس کا کیا کہنا اس نے میرے کانوں کو زیوروں سے بوجھل کر دیا ہے اور میرے دونوں بازو چربی سے پھلا دئیے ہیں مجھے خوب کھلا کر موٹا کر دیا ہے کہ میں بھی اپنے تئیں خوب موٹی سمجھنے لگی ہوں۔ شادی سے پہلے میں تھوڑی سے بھیڑ بکریوں میں تنگی سے گزر بسر کرتی تھی۔ ابوزرعہ نے مجھ کو گھوڑوں، اونٹوں، کھیت کھلیان سب کا مالک بنا دیا ہے اتنی بہت جائیداد ملنے پر بھی اس کا مزاج اتنا عمدہ ہے کہ بات کہوں تو برا نہیں مانتا مجھ کو کبھی برا نہیں کہتا۔ سوئی پڑی رہوں تو صبح تک مجھے کوئی نہیں جگاتا۔ پانی پیوں تو خوب سیراب ہو کر پی لوں رہی ابوزرعہ کی ماں ( میری ساس ) تو میں اس کی کیا خوبیاں بیان کروں۔ اس کا توشہ کھانا مال و اسباب سے بھرا ہوا، اس کا گھر بہت ہی کشادہ۔ ابوزرعہ کا بیٹا وہ بھی کیسا اچھا خوبصورت ( نازک بدن دبلا پتلا ) ہری چھالی یا ننگی تلوار کے برابر اس کے سونے کی جگہ ایسا کم خوراک کہ بکری کے چار ماہ کے بچے کا دست کا گوشت اس کا پیٹ بھر دے۔ ابوزرعہ کی بیٹی وہ بھی سبحان اللہ کیا کہنا اپنے باپ کی پیاری، اپنی ماں کی پیاری ( تابع فرمان اطاعت گزار ) کپڑا بھر پور پہننے والی ( موٹی تازی ) سوکن کی جلن۔ ابوزرعہ کی لونڈی اس کی بھی کیا پوچھتے ہو کبھی کوئی بات ہماری مشہور نہیں کرتی ( گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے ) کھانے تک نہیں چراتی گھر میں کوڑا کچڑا نہیں چھوڑتی مگر ایک دن ایسا ہوا کہ لوگ مکھن نکالنے کو دودھ متھ رہے تھے۔ ( صبح ہی صبح ) ابوزرعہ باہر گیا اچانک اس نے ایک عورت دیکھی جس کے دو بچے چیتوں کی طرح اس کی کمر کے تلے دو اناروں سے کھیل رہے تھے ( مراد اس کی دونوں چھاتیاں ہیں جو انار کی طرح تھیں ) ۔ ابوزرعہ نے مجھ کو طلاق دے کر اس عورت سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد میں نے ایک اور شریف سردار سے نکاح کر لیا جو گھوڑے کا اچھا سوار، عمدہ نیزہ باز ہے، اس نے بھی مجھ کو بہت سے جانور دے دئیے ہیں اور ہر قسم کے اسباب میں سے ایک ایک جوڑا دیا ہوا ہے اور مجھ سے کہا کرتا ہے کہ ام زرع! خوب کھا پی، اپنے عزیز و اقرباء کو بھی خوب کھلا پلا تیرے لیے عام اجازت ہے مگر یہ سب کچھ بھی جو میں نے تجھ کو دیا ہوا ہے اگر اکٹھا کروں تو تیرے پہلے خاوند ابوزرعہ نے جو تجھ کو دیا تھا، اس میں کا ایک چھوٹا برتن بھی نہ بھرے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 5188 in Urdu

ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے ( اس کی رعیت کے بارے میں ) سوال ہو گا۔ پس امام حاکم ہے اس سے سوال ہو گا۔ مرد اپنی بیوی بچوں کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا۔ غلام اپنے سردار کے مال کا حاکم ہے اور اس سے سوال ہو گا ہاں پس تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے سوال ہو گا۔

Read more