Sahih Bukhari Hadith No 3588 in Urdu

  اور تم حکومت کے لیے سب سے زیادہ بہتر شخص اسے پاؤ گے جو حکومت کرنے کو برا جانے ( یعنی اس منصب کو خود کے لیے ناپسند کرے ) یہاں تک کہ وہ اس میں پھنس جائے۔ لوگوں کی مثال کان کی سی ہے جو جاہلیت میں شریف تھے، وہ اسلام لانے کے بعد بھی شریف ہیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3587 in Urdu

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک نہیں قائم ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم کے ساتھ جنگ نہ کر لو جن کے جوتے بال کے ہوں اور جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک چھوٹی اور چپٹی ہو گی، چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بہ تہ ڈھال ہوتی ہے۔“

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3586 in Urdu

ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، (دوسری سند) کہا مجھ سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، انہوں نے ابووائل سے سنا، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ   عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: فتنہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے کہ مجھے زیادہ یاد ہے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر بیان کرو ( ماشاء اللہ ) تم تو بہت جری ہو۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کی ایک آزمائش ( فتنہ ) تو اس کے گھر، مال اور پڑوس میں ہوتا ہے جس کا کفارہ، نماز، روزہ، صدقہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسی نیکیاں بن جاتی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس کے متعلق نہیں پوچھتا، بلکہ میری مراد اس فتنہ سے ہے جو سمندر کی طرح ( ٹھاٹھیں مارتا ) ہو گا۔ انہوں نے کہا اس فتنہ کا آپ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ پھر تو بند نہ ہو سکے گا۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازے کے متعلق جانتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ اسی طرح جانتے تھے جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو ہر شخص جانتا ہے۔ میں نے ایسی حدیث بیان کی جو غلط نہیں تھی۔ ہمیں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے ( دروازہ کے متعلق ) پوچھتے ہوئے ڈر معلوم ہوا۔ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا تو انہوں نے پوچھا کہ وہ دروازہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3585 in Urdu

ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، انہیں حفص بن عبیداللہ بن انس بن مالک نے خبر دی اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ   مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ کے لیے تشریف لاتے تو آپ ان میں سے ایک تنے کے پاس کھڑے ہو جاتے لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف لائے۔ پھر ہم نے اس تنے سے اس طرح کی رونے کی آواز سنی جیسی بوقت ولادت اونٹنی کی آواز ہوتی ہے۔ آخر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قریب آ کر اس پر ہاتھ رکھا تو وہ چپ ہوا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3584 in Urdu

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے لیے ایک درخت ( کے تنے ) کے پاس کھڑے ہوتے یا ( بیان کیا کہ ) کھجور کے درخت کے پاس۔ پھر ایک انصاری عورت نے یا کسی صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک منبر تیار کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہارا جی چاہے تو کر دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے لیے منبر تیار کر دیا۔ جب جمعہ کا دن ہوا تو آپ اس منبر پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس کھجور کے تنے سے بچے کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ جس طرح بچوں کو چپ کرنے کے لیے لوریاں دیتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح اسے چپ کرایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تنا اس لیے رو رہا تھا کہ وہ اللہ کے اس ذکر کو سنا کرتا تھا جو اس کے قریب ہوتا تھا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3583 in Urdu

 ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوحفص نے جن کا نام عمر بن علاء ہے اور جو عمرو بن علاء کے بھائی ہیں، بیان کیا، کہا کہ میں نے نافع سے سنا اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی کا سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے۔ پھر جب منبر بن گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے اس پر تشریف لے گئے۔ اس پر اس لکڑی نے باریک آواز سے رونا شروع کر دیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب تشریف لائے اور اپنا ہاتھ اس پر پھیرا اور عبدالحمید نے کہا کہ ہمیں عثمان بن عمر نے خبر دی، انہیں معاذ بن علاء نے خبر دی اور انہیں نافع نے اسی حدیث کی اور اس کی روایت ابوعاصم نے کی، ان سے ابورواد نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3582 in Urdu

ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو یونس سے بھی روایت کیا ہے۔ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز کے لیے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! گھوڑے بھوک سے ہلاک ہو گئے اور بکریاں بھی ہلاک ہو گئیں۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہم پر پانی برسائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح ( بالکل صاف ) تھا۔ اتنے میں ہوا چلی۔ اس نے ابر ( بادل ) کو اٹھایا پھر ابر کے بہت سے ٹکڑے جمع ہو گئے اور آسمان نے گویا اپنے دہانے کھول دیئے۔ ہم جب مسجد سے نکلے تو گھر پہنچتے پہنچتے پانی میں ڈوب چکے تھے۔ بارش یوں ہی دوسرے جمعہ تک برابر ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ کو وہی صاحب یا کوئی دوسرے پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مکانات گر گئے۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: اے اللہ! اب ہمارے چاروں طرف بارش برسا ( جہاں اس کی ضرورت ہو ) ہم پر نہ برسا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ اسی وقت ابر پھٹ کر مدینہ کے ارد گرد سر پیچ کی طرح ہو گیا تھا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3581 in Urdu

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعثمان نہدی نے بیان کیا اور ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   صفہ والے محتاج اور غریب لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ ایک تیسرے کو بھی اپنے ساتھ لیتا جائے اور جس کے گھر چار آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچواں آدمی اپنے ساتھ لیتا جائے یا چھٹے کو بھی یا آپ نے اسی طرح کچھ فرمایا ( راوی کو پانچ اور چھ میں شک ہے ) خیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین اصحاب صفہ کو اپنے ساتھ لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ دس اصحاب کو لے گئے اور گھر میں، میں تھا اور میرے ماں باپ تھے۔ ابوعثمان نے کہا مجھ کو یاد نہیں عبدالرحمٰن نے یہ بھی کہا، اور میری عورت اور خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھروں میں کام کرتا تھا۔ لیکن خود ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا اور عشاء کی نماز تک وہاں ٹھہرے رہے ( مہمانوں کو پہلے ہی بھیج چکے تھے ) اس لیے انہیں اتنا ٹھہرنا پڑا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھا لیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو جتنا منظور تھا اتنا حصہ رات کا جب گزر گیا تو آپ گھر واپس آئے۔ ان کی بیوی نے ان سے کہا، کیا بات ہوئی۔ آپ کو اپنے مہمان یاد نہیں رہے؟ انہوں نے پوچھا: کیا مہمانوں کو اب تک کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کہا کہ مہمانوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کیا۔ ان کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تھا لیکن وہ نہیں مانے۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو جلدی سے چھپ گیا ( کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ ہو گئے تھے ) ۔ آپ نے ڈانٹا، اے پاجی! اور بہت برا بھلا کہا، پھر ( مہمانوں سے ) کہا چلو اب کھاؤ اور خود قسم کھا لی کہ میں تو کبھی نہ کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم، پھر ہم جو لقمہ بھی ( اس کھانے میں سے ) اٹھاتے تو جیسے نیچے سے کھانا اور زیادہ ہو جاتا تھا ( اتنی اس میں برکت ہوئی ) سب لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو دیکھا تو کھانا جوں کا توں تھا یا پہلے سے بھی زیادہ۔ اس پر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا، اے بنی فراس کی بہن ( دیکھو تو یہ کیا معاملہ ہوا ) انہوں نے کہا، کچھ بھی نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم، کھانا تو پہلے سے تین گنا زیادہ معلوم ہوتا ہے، پھر وہ کھانا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا کہ یہ میرا قسم کھانا تو شیطان کا اغوا تھا۔ ایک لقمہ کھا کر اسے آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے وہاں وہ صبح تک رکھا رہا۔ اتفاق سے ایک کافر قوم جس کا ہم مسلمانوں سے معاہدہ تھا اور معاہدہ کی مدت ختم ہو چکی تھی۔ ان سے لڑنے کے لیے فوج جمع کی گئی۔ پھر ہم بارہ ٹکڑیاں ہو گئے اور ہر آدمی کے ساتھ کتنے آدمی تھے یہ اللہ ہی جانتا ہے مگر اتنا ضرور معلوم ہے کہ آپ نے ان نقیبوں کو لشکر والوں کے ساتھ بھیجا۔ حاصل یہ کہ فوج والوں نے اس میں سے کھایا۔ یا عبدالرحمٰن نے کچھ ایسا ہی کہا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3580 in Urdu

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے عامر نے، کہا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   ان کے والد ( عبداللہ بن عمرو بن حرام، جنگ احد میں ) شہید ہو گئے تھے۔ اور وہ مقروض تھے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میرے والد اپنے اوپر قرض چھوڑ گئے۔ ادھر میرے پاس سوا اس پیداوار کے جو کھجوروں سے ہو گی اور کچھ نہیں ہے اور اس کی پیداوار سے تو برسوں میں قرض ادا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیے تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ کر زیادہ منہ نہ پھاڑیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ( لیکن وہ نہیں مانے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے جو ڈھیر لگے ہوئے تھے پہلے ان میں سے ایک کے چاروں طرف چلے اور دعا کی۔ اسی طرح دوسرے ڈھیر کے بھی۔ پھر آپ اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کھجوریں نکال کر انہیں دو۔ چنانچہ سارا قرض ادا ہو گیا اور جتنی کھجوریں قرض میں دی تھیں اتنی ہی بچ گئیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 3579 in Urdu

مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اور تم لوگ ان سے ڈرتے ہو۔ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا: برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا اور ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھاتے وقت کھانے کے تسبیح سنتے تھے۔

Read more