Tag Archive for: Daily Hadess

Sahih Bukhari Hadith No 4759 in Urdu

ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے حسن بن مسلم نے، ان سے صفیہ بنت شیبہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھی کہ   جب یہ آیت نازل ہوئی «وليضربن بخمرهن على جيوبهن‏» کہ ”اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں“ تو ( انصار کی عورتوں نے ) اپنے تہبندوں کو دونوں کنارے سے پھاڑ کر ان کی اوڑھنیاں بنا لیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4758 in Urdu

اور احمد بن شبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد شبیب بن سعید نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ   اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے پہلی ہجرت کی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے آیت «وليضربن بخمرهن على جيوبهن‏» ”اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔“ ( تاکہ سینہ اور گلا وغیرہ نہ نظر آئے ) نازل کی، تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر ان کے دوپٹے بنا لیے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4757 in Urdu

اور ابواسامہ حماد بن اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ   جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد و ثنا اس کی شان کے مطابق بیان کی، پھر فرمایا، امابعد! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بدنام کیا ہے اور اللہ کی قسم! کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص ( صفوان بن معطل ) کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم! ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوا تو میری موجودگی ہی میں داخل ہوا اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتا اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس کے بعد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں حکم فرمایئے کہ ہم ایسے مردود لوگوں کی گردنیں اڑا دیں۔ اس کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک صاحب ( سعد بن عبادہ ) کھڑے ہوئے، حسان بن ثابت کی والدہ اسی قبیلہ خزرج سے تھیں، انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ تم جھوٹے ہو، اگر وہ لوگ ( تہمت لگانے والے ) قبیلہ اوس کے ہوتے تو تم کبھی انہیں قتل کرنا پسند نہ کرتے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد ہی میں اوس و خزرج کے قبائل میں باہم فساد کا خطرہ ہو گیا، اس فساد کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی، اسی دن کی رات میں، میں قضائے حاجت کے لیے باہر نکلی، میرے ساتھ ام مسطح بھی تھیں۔ وہ ( راستے میں ) پھسل گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے کہا، آپ اپنے بیٹے کو کوستی ہیں، اس پر وہ خاموش ہو گئیں، پھر دوبارہ وہ پھسلیں اور ان کی زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ مسطح کو اللہ غارت کرے۔ میں نے پھر کہا کہ اپنے بیٹے کو کوستی ہو، پھر وہ تیسری مرتبہ پھسلیں تو میں نے پھر انہیں ٹوکا۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ کی قسم! میں تو تیری ہی وجہ سے اسے کوستی ہوں۔ میں نے کہا کہ میرے کس معاملہ میں انہیں آپ کوس رہی ہیں؟ بیان کیا۔ کہ اب انہوں نے طوفان کا سارا قصہ بیان کیا میں نے پوچھا، کیا واقعی یہ سب کچھ کہا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! پھر میں اپنے گھر گئی۔ لیکن ( ان واقعات کو سن کر غم کا یہ حال تھا کہ ) مجھے کچھ خبر نہیں کہ کس کام کے لیے میں باہر گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں، ذرہ برابر بھی مجھے اس کا احساس نہیں رہا۔ اس کے بعد مجھے بخار چڑھ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے ذرا میرے والد کے گھر پہنچوا دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک بچہ کو کر دیا۔ میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ام رومان نیچے کے حصہ میں ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بالاخانے میں قرآن پڑھ رہے ہیں۔ والدہ نے پوچھا بیٹی اس وقت کیسے آ گئیں۔ میں نے وجہ بتائی اور واقعہ کی تفصیلات سنائیں ان باتوں سے جتنا غم مجھ کو تھا ایسا معلوم ہوا کہ ان کو اتنا غم نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا، بیٹی اتنا فکر کیوں کرتی ہو کم ہی ایسی کوئی خوبصورت عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور وہ اس سے حسد نہ کریں اور اس میں سو عیب نہ نکالیں۔ اس تہمت سے وہ اس درجہ بالکل بھی متاثر نہیں معلوم ہوتی تھیں جتنا میں متاثر تھی۔ میں نے پوچھا والد کے علم میں بھی یہ باتیں آ گئیں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، میں نے پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی علم میں سب کچھ ہے۔ میں یہ سن کر رونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی میری آواز سن لی، وہ گھر کے بالائی حصہ میں قرآن پڑھ رہے تھے، اتر کر نیچے آئے اور والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ تمام باتیں اسے بھی معلوم ہو گئی ہیں جو اس کے متعلق کہی جا رہی ہیں۔ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا: بیٹی! تمہیں قسم دیتا ہوں، اپنے گھر واپس چلی جاؤ چنانچہ میں واپس چلی آئی۔ ( جب میں اپنے والدین کے گھر آ گئی تھی تو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ ( بریرہ ) سے میرے متعلق پوچھا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی، البتہ ایسا ہو جایا کرتا تھا ( کم عمری کی غفلت کی وجہ سے ) کہ ( آٹا گوندھتے ہوئے ) سو جایا کرتیں اور بکری آ کر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کو معلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اللہ کی قسم! کہ میں نے آج تک کسی ( غیر ) عورت کا کپڑا نہیں کھولا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آ گئے اور میرے پاس ہی رہے۔ آخر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے۔ میرے والدین مجھے دائیں اور بائیں طرف سے پکڑے ہوئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: امابعد! اے عائشہ! اگر تم نے واقعی کوئی برا کام کیا ہے اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ کرو، کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک انصاری خاتون بھی آ گئی تھیں اور دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں، میں نے عرض کی، آپ ان خاتون کا لحاظ نہیں فرماتے کہیں یہ ( اپنی سمجھ کے مطابق کوئی الٹی سیدھی ) بات باہر کہہ دیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی، اس کے بعد میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہی جواب دیجئیے، انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا کہوں جب کسی نے میری طرف سے کچھ نہیں کہا تو میں نے شہادت کے بعد اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد و ثنا کی اور کہا: امابعد! اللہ کی قسم! اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی اور اللہ عزوجل گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچی ہوں، تو آپ لوگوں کے خیال کو بدلنے میں میری یہ بات مجھے کوئی نفع نہیں پہنچائے گی، کیونکہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں رچ بس گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے واقعتاً یہ کام کیا ہے حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے، تو آپ لوگ کہیں گے کہ اس نے تو جرم کا اقرار کر لیا ہے۔ اللہ کی قسم! میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» ”پس صبر ہی اچھا ہے اور تم لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔“ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ یعقوب علیہ السلام کا نام یاد آ جائے لیکن نہیں یاد آیا۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہو گیا اور ہم سب خاموش ہو گئے۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ خوشی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( پسینہ سے ) اپنی پیشانی صاف کرتے ہوئے فرمایا کہ عائشہ! تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکی نازل کر دی ہے۔ بیان کیا کہ اس وقت مجھے بڑا غصہ آ رہا تھا۔ میرے والدین نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ، میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی نہ آپ کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی، میں تو صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی جس نے میری برات نازل کی ہے۔ آپ لوگوں نے تو یہ افواہ سنی اور اس کا انکار بھی نہ کر سکے، اس کے ختم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دینداری کی وجہ سے اس تہمت میں پڑنے سے بچا لیا۔ میری بابت انہوں نے خیر کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی، البتہ ان کی بہن حمنہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں۔ اس طوفان کو پھیلانے میں مسطح اور حسان اور منافق عبداللہ بن ابی نے حصہ لیا تھا۔ عبداللہ بن ابی منافق ہی تو کھود کھود کر اس کو پوچھتا اور اس پر حاشیہ چڑھاتا، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا۔ «وهو الذي تولى كبره» سے وہ اور حمنہ مراد ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ مسطح کو کوئی فائدہ آئندہ کبھی وہ نہیں پہنچائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم‏» ”اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں“ الخ، اس سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ ”وہ قرابت والوں اور مسکینوں کو“ اس سے مراد مسطح ہیں۔ ( دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں ) اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم‏» ”کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے“ تک۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں، اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم تو اسی کے خواہشمند ہیں کہ تو ہماری مغفرت فرما۔ پھر وہ پہلے کی طرح مسطح کو جو دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4756 in Urdu

مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا، کہ   حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور یہ شعر پڑھا۔ عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں، ان کے متعلق کسی کو شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ آپ غافل اور پاک دامن عورتوں کا گوشت کھانے سے کامل پرہیز کرتی ہیں۔“ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ لیکن اے حسان! تو ایسا نہیں ہے۔ بعد میں، میں نے عرض کیا آپ ایسے شخص کو اپنے پاس آنے دیتی ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ آیت بھی نازل کر چکا ہے «والذي تولى كبره منهم‏» کہ ”اور جس نے ان میں سے سب سے بڑا حصہ لیا۔“ الخ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نابینا ہو جانے سے بڑھ کر اور کیا عذاب ہو گا، پھر انہوں نے کہا کہ حسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کی ہجو کا جواب دیا کرتے تھے ( کیا یہ شرف ان کے لیے کم ہے ) ۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4755 in Urdu

ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے کہ   عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کرنے کی حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی۔ میں نے عرض کیا کہ آپ انہیں بھی اجازت دیتی ہیں ( حالانکہ انہوں نے بھی آپ پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تھا ) اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا۔ کیا انہیں اس کی ایک بڑی سزا نہیں ملی ہے۔ سفیان نے کہا کہ ان کا اشارہ ان کے نابینا ہو جانے کی طرف تھا۔ پھر حسان نے یہ شعر پڑھا۔ ”عفیفہ اور بڑی عقلمند ہیں کہ ان کے متعلق کسی کو کوئی شبہ بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ غافل اور پاکدامن عورتوں کا گوشت کھانے سے اکمل پرہیز کرتی ہیں۔“ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، لیکن تو نے ایسا نہیں کیا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4754 in Urdu

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے کہ   ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آنے کی اجازت چاہی۔ پھر راوی نے مذکورہ بالا حدیث کی طرح بیان کیا لیکن اس حدیث میں راوی نے لفظ «نسيا منسيا‏.‏» کا ذکر نہیں کیا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4753 in Urdu

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے، کہا کہ   عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات سے تھوڑی دیر پہلے، جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے پاس آنے کی اجازت چاہی، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میری تعریف نہ کرنے لگیں۔ کسی نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور خود بھی عزت دار ہیں ( اس لیے آپ کو اجازت دے دینی چاہئے ) اس پر انہوں نے کہا کہ پھر انہیں اندر بلا لو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا کہ آپ کس حال میں ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں اللہ کے نزدیک اچھی ہوں تو سب اچھا ہی اچھا ہے۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان شاءاللہ آپ اچھی ہی رہیں گی۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور آپ کے سوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا اور آپ کی برات ( قرآن مجید میں ) آسمان سے نازل ہوئی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی خدمت میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما حاضر ہوئے۔ محترمہ نے ان سے فرمایا کہ ابھی ابن عباس آئے تھے اور میری تعریف کی، میں تو چاہتی ہوں کہ کاش میں ایک بھولی بسری گمنام ہوتی۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4752 in Urdu

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا   وہ مذکورہ بالا آیت «إذ تلقونه بألسنتكم‏» ( جب تم اپنی زبانوں سے اسے منہ در منہ نقل کر رہے تھے ) پڑھ رہی تھیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4751 in Urdu

ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن کثیر نے خبر دی، انہیں حصین بن عبدالرحمٰن نے، انہیں ابووائل نے، انہیں مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ   جب عائشہ نے تہمت کی خبر سنی تو وہ بیہوش ہو کر گر پڑی تھی۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4750 in Urdu

ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا واقعہ بیان کیا۔ یعنی جس میں تہمت لگانے والوں نے ان کے متعلق افواہ اڑائی تھی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بری قرار دیا تھا۔ ان تمام راویوں نے پوری حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا اور ان راویوں میں سے بعض کا بیان بعض دوسرے کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض راوی کو بعض دوسرے کے مقابلہ میں حدیث زیادہ بہتر طریقہ پر محفوظ، یاد تھی۔ مجھ سے یہ حدیث عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ ڈالتے جن کا نام نکل جاتا انہیں اپنے ساتھ لے جاتے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر اسی طرح آپ نے قرعہ ڈالا اور میرا نام نکلا۔ میں آپ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ مجھے ہودج سمیت اونٹ پر چڑھا دیا جاتا اور اسی طرح اتار لیا جاتا تھا۔ یوں ہمارا سفر جاری رہا۔ پھر جب آپ اس غزوہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات جب کوچ کا حکم ہوا۔ میں ( قضائے حاجت کے لیے ) پڑاؤ سے کچھ دور گئی اور قضائے حاجت کے بعد اپنے کجاوے کے پاس واپس آ گئی۔ اس وقت مجھے خیال ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا بنا ہوا ہار کہیں راستہ میں گر گیا ہے۔ میں اسے ڈھونڈنے لگی اور اس میں اتنا محو ہو گئی کہ کوچ کا خیال ہی نہ رہا۔ اتنے میں جو لوگ میرے ہودج کو سوار کیا کرتے تھے آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر اس اونٹ پر رکھ دیا جو میری سواری کے لیے تھا۔ انہوں نے یہی سمجھا کہ میں اس میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھیں گوشت سے ان کا جسم بھاری نہیں ہوتا تھا کیونکہ کھانے پینے کو بہت کم ملتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب لوگوں نے ہودج کو اٹھایا تو اس کے ہلکے پن میں انہیں کوئی اجنبیت نہیں محسوس ہوئی۔ میں یوں بھی اس وقت کم عمر لڑکی تھی۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس اونٹ کو اٹھایا اور چل پڑے۔ مجھے ہار اس وقت ملا جب لشکر گزر چکا تھا۔ میں جب پڑاؤ پر پہنچی تو وہاں نہ کوئی پکارنے والا تھا اور نہ کوئی جواب دینے والا۔ میں وہاں جا کر بیٹھ گئی جہاں پہلے بیٹھی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی انہیں میرے نہ ہونے کا علم ہو جائے گا اور پھر وہ مجھے تلاش کرنے کے لیے یہاں آئیں گے۔ میں اپنی اسی جگہ پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی ثم ذکوانی لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے ( تاکہ اگر لشکر والوں سے کوئی چیز چھوٹ جائے تو اسے اٹھا لیں سفر میں یہ دستور تھا ) رات کا آخری حصہ تھا، جب میرے مقام پر پہنچے تو صبح ہو چکی تھی۔ انہوں نے ( دور سے ) ایک انسانی سایہ دیکھا کہ پڑا ہوا ہے وہ میرے قریب آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پردہ کے حکم سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔ جب وہ مجھے پہچان گئے تو «إنا لله» پڑھنے لگے۔ میں ان کی آواز پر جاگ گئی اور چہرہ چادر سے چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ میں نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» کے سوا ان کی زبان سے کوئی کلمہ سنا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا اونٹ بٹھا دیا اور میں اس پر سوار ہو گئی وہ ( خود پیدل ) اونٹ کو آگے سے کھینچتے ہوئے لے چلے۔ ہم لشکر سے اس وقت ملے جب وہ بھری دوپہر میں ( دھوپ سے بچنے کے لیے ) پڑاؤ کئے ہوئے تھے، اس تہمت میں پیش پیش عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق تھا۔ مدینہ پہنچ کر میں بیمار پڑ گئی اور ایک مہینہ تک بیمار رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی باتوں کا برابر چرچا رہا لیکن مجھے ان باتوں کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ صرف ایک معاملہ سے مجھے شبہ سا ہوتا تھا کہ میں اپنی بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لطف و محبت کا اظہار نہیں دیکھتی تھی جو پہلی بیماریوں کے دنوں میں دیکھ چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے سلام کر کے صرف اتنا پوچھ لیتے کہ کیا حال ہے؟ اور پھر واپس چلے جاتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرز عمل سے شبہ ہوتا تھا لیکن صورت حال کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ ایک دن جب ( بیماری سے کچھ افاقہ تھا ) کمزوری باقی تھی تو میں باہر نکلی میرے ساتھ ام مسطح رضی اللہ عنہا بھی تھیں ہم مناصع کی طرف گئے۔ قضائے حاجت کے لیے ہم وہیں جایا کرتے تھے اور قضائے حاجت کے لیے ہم صرف رات ہی کو جایا کرتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب ہمارے گھروں کے قریب بتی الخلاء نہیں بنے تھے۔ اس وقت تک ہم قدیم عرب کے دستور کے مطابق قضائے حاجت آبادی سے دور جا کر کیا کرتے تھے۔ اس سے ہمیں بدبو سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھر کے قریب بنا دیئے جائیں۔ خیر میں اور ام مسطح قضائے حاجت کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ ابورہم بن عبد مناف کی بیٹی تھیں اور ان کی والدہ ( رانطہٰ نامی ) صخر بن عامر کی بیٹی تھیں۔ اس طرح وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ ہوتی ہیں۔ ان کے لڑکے مسطح بن اثاثہ ہیں۔ قضائے حاجت کے بعد جب ہم گھر واپس آنے لگے تو مسطح کی ماں کا پاؤں انہیں کی چادر میں الجھ کر پھسل گیا۔ اس پر ان کی زبان سے نکلا مسطح برباد ہو، میں نے کہا تم نے بری بات کہی، تم ایک ایسے شخص کو برا کہتی ہو جو غزوہ بدر میں شریک رہا ہے۔ انہوں نے کہا، واہ اس کی باتیں تو نے نہیں سنی؟ میں نے پوچھا: انہوں نے کیا کہا ہے؟ پھر انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی باتیں بتائیں میں پہلے سے بیمار تھی ہی، ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا پھر جب میں گھر پہنچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے تو آپ نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیں گے؟ میرا مقصد ماں باپ کے یہاں جانے سے صرف یہ تھا کہ اس خبر کی حقیقت ان سے پوری طرح معلوم ہو جائے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور میں اپنے والدین کے گھر آ گئی۔ میں نے والدہ سے پوچھا کہ یہ لوگ کس طرح کی باتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا بیٹی صبر کرو، کم ہی کوئی ایسی حسین و جمیل عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہو گی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر بھی وہ اس طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ بیان کیا کہ اس پر میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا اس طرح کا چرچا لوگوں نے بھی کر دیا؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس کے بعد میں رونے لگی اور رات بھر روتی رہی۔ صبح ہو گئی لیکن میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند کا نام و نشان تھا۔ صبح ہو گئی اور میں روئے جا رہی تھی اسی عرصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کو بلایا کیونکہ اس معاملہ میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ آپ ان سے میرے چھوڑ دینے کے لیے مشورہ لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ وحی اترنے میں دیر ہو گئی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ ( یعنی خود عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) اس تہمت سے بَری ہیں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے کتنا تعلق خاطر ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کی بیوی کے بارے میں خیر و بھلائی کے سوا اور ہمیں کسی چیز کا علم نہیں اور علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی ہے، عورتیں ان کے سوا اور بھی بہت ہیں، ان کی باندی ( بریرہ ) سے بھی آپ اس معاملہ میں دریافت فرما لیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا اور دریافت فرمایا: بریرہ! کیا تم نے کوئی ایسی چیز دیکھی ہے جس سے تجھ کو شبہ گزرا ہو؟ انہوں نے عرض کیا، نہیں حضور! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان میں کوئی ایسی بات نہیں پائی جس پر میں عیب لگا سکوں، ایک بات ضرور ہے کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھنے میں بھی سو جاتی ہیں اور اتنے میں کوئی بکری یا پرندہ وغیرہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور ان کا گوندھا ہوا آٹا کھا جاتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شکایت کی۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ اے مسلمانو! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے گھر پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم کہ میں اپنی بیوی کو نیک پاک دامن ہونے کے سوا کچھ نہیں جانتا اور یہ لوگ جس مرد کا نام لے رہے ہیں ان کے بارے میں بھی خیر کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر میں گئے تو میرے ساتھ ہی گئے ہیں۔ اس پر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی مدد کروں گا اور اگر وہ شخص قبیلہ اوس سے تعلق رکھتا ہے تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا اور اگر وہ ہمارے بھائیوں یعنی خزرج میں کا کوئی آدمی ہے تو آپ ہمیں حکم دیں، تعمیل میں کوتاہی نہیں ہو گی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس کے بعد سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے، اس سے پہلے وہ مرد صالح تھے لیکن آج ان پر قومی حمیت غالب آ گئی تھی ( عبداللہ بن ابی ابن سلول منافق ) ان ہی کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا انہوں نے اٹھ کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ کی قسم! تم نے جھوٹ کہا ہے تم اسے قتل نہیں کر سکتے، تم میں اس کے قتل کی طاقت نہیں ہے۔ پھر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے وہ سعد بن معاذ کے چچیرے بھائی تھے انہوں نے سعد بن عبادہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو، ہم اسے ضرور قتل کریں گے، کیا تم منافق ہو گئے ہو کہ منافقوں کی طرفداری میں لڑتے ہو؟ اتنے میں دونوں قبیلے اوس و خزرج اٹھ کھڑے ہوئے اور نوبت آپس ہی میں لڑنے تک پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر کھڑے تھے۔ آپ لوگوں کو خاموش کرنے لگے۔ آخر سب لوگ چپ ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس دن بھی میں برابر روتی رہی نہ آنسو تھمتا تھا اور نہ نیند آتی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( دوسری ) صبح ہوئی تو میرے والدین میرے پاس ہی موجود تھے، دو راتیں اور ایک دن مجھے مسلسل روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس عرصہ میں نہ مجھے نیند آتی تھی اور نہ آنسو تھمتے تھے۔ والدین سوچنے لگے کہ کہیں روتے روتے میرا دل نہ پھٹ جائے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابھی وہ اسی طرح میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت دے دی، وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی اس وقت سے اب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے، آپ نے ایک مہینہ تک اس معاملہ میں انتظار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سلسلہ میں کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا پھر فرمایا، امابعد! اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے اس اس طرح کی خبریں پہنچی ہیں پس اگر تم بَری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برات خود کر دے گا۔ لیکن اگر تم سے غلطی سے گناہ ہو گیا ہے تو اللہ سے دعائے مغفرت کرو اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرو، کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے اور پھر اللہ سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو ختم کر چکے تو یکبارگی میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے جیسے ایک قطرہ بھی باقی نہ رہا ہو۔ میں نے اپنے والد ( ابوبکر ) سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجئیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا میری طرف سے آپ جواب دیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں آپ سے کیا عرض کروں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں خود ہی بولی میں اس وقت نوعمر لڑکی تھی، میں نے بہت زیادہ قرآن بھی نہیں پڑھا تھا ( میں نے کہا کہ ) اللہ کی قسم! میں تو یہ جانتی ہوں کہ ان افواہوں کے متعلق جو کچھ آپ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ لوگوں کے دل میں جم گیا ہے اور آپ لوگ اسے صحیح سمجھنے لگے ہیں، اب اگر میں یہ کہتی ہوں کہ میں ان تہمتوں سے بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں واقعی بَری ہوں، تو آپ لوگ میری بات کا یقین نہیں کریں گے، لیکن اگر میں تہمت کا اقرار کر لوں، حالانکہ اللہ کے علم میں ہے کہ میں اس سے قطعاً بَری ہوں، تو آپ لوگ میری تصدیق کرنے لگیں گے۔ اللہ کی قسم! میرے پاس آپ لوگوں کے لیے کوئی مثال نہیں ہے سوا یوسف کے والد کے اس ارشاد کے کہ انہوں نے فرمایا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» ”پس صبر ہی اچھا ہے اور تم جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے گا“ بیان کیا کہ پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ کہا کہ مجھے پورا یقین تھا کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری برات ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی تلاوت کی جائے گی۔ میں اپنی حیثیت اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ( قرآن مجید کی آیت ) نازل فرمائے۔ البتہ مجھے اس کی توقع ضرور تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے متعلق کوئی خواب دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ میری برات کر دے گا۔ بیان کیا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی اسی مجلس میں تشریف رکھتے تھے گھر والوں میں سے کوئی باہر نہ تھا کہ آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا اور وہی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر طاری ہوئی تھی جو وحی کے نازل ہوتے ہوئے طاری ہوتی تھی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسینے پسینے ہو گئے اور پسینہ موتیوں کی طرف آپ کے جسم اطہر سے ڈھلنے لگا حالانکہ سردی کے دن تھے۔ یہ کیفیت آپ پر اس وحی کی شدت کی وجہ سے طاری ہوتی تھی جو آپ پر نازل ہوتی تھی۔ بیان کیا کہ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم فرما رہے تھے اور سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا، یہ تھا کہ عائشہ! اللہ نے تمہیں بَری قرار دیا ہے۔ میری والدہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( آپ کا شکر ادا کرنے کے لیے ) کھڑی ہو جاؤ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہرگز آپ کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور اللہ پاک کے سوا اور کسی کی تعریف نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو آیت نازل کی تھی وہ یہ تھی «إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم لا تحسبوه‏» کہ ”بیشک جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ تم میں سے ایک چھوٹا سے گروہ ہے“ مکمل دس آیتوں تک۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں میری برات میں نازل کر دیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ کے اخراجات ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھایا کرتے تھے انہوں نے ان کے متعلق کہا کہ اللہ کی قسم! اب مسطح پر کبھی کچھ بھی خرچ نہیں کروں گا۔ اس نے عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) پر کیسی کیسی تہمتیں لگا دی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم والسعة أن يؤتوا أولي القربى والمساكين والمهاجرين في سبيل الله وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لكم والله غفور رحيم‏» ”اور جو لوگ تم میں بزرگی اور وسعت والے ہیں، وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کی مدد دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں بلکہ چاہئے کہ ان کی لغزشوں کو معاف کرتے رہیں اور درگزر کرتے رہیں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے، بیشک اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا ہی رحمت والا ہے۔“ ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے، ہاں اللہ کی قسم! میری تو یہی خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے چنانچہ مسطح رضی اللہ عنہ کو وہ تمام اخراجات دینے لگے جو پہلے دیا کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! اب کبھی ان کا خرچ بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بن جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے معاملہ میں پوچھا تھا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ زینب! تم نے بھی کوئی چیز کبھی دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے کان اور میری آنکھ کو اللہ سلامت رکھے، میں نے ان کے اندر خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ازواج مطہرات میں وہی ایک تھیں جو مجھ سے بھی اوپر رہنا چاہتی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے انہیں تہمت لگانے سے محفوظ رکھا۔ لیکن ان کی بہن حمنہ ان کے لیے لڑی اور تہمت لگانے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہو گئی۔

Read more