Tag Archive for: Daily Hadess

Sahih Bukhari Hadith No 4559 in Urdu

ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا. کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی. ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے سالم نے بیان کیا. ان سے ان کے والد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا   اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے سر اٹھا کر یہ بددعا کی۔ ”اے اللہ! فلاں، فلاں اور فلاں کافر پر لعنت کر۔ یہ بددعا آپ نے «سمع الله لمن حمده» اور «ربنا ولك الحمد» کے بعد کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ليس لك من الأمر شىء‏» ”آپ کو اس میں کوئی دخل نہیں۔“ آخر آیت «فإنهم ظالمون‏» تک۔ اس روایت کو اسحاق بن راشد نے زہری سے نقل کیا ہے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4558 in Urdu

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا. کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا. کہا عمرو بن دینار نے کہا، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا. انہوں نے بیان کیا. کہ   ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا. کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا عمرو بن دینار نے کہا، انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4557 in Urdu

ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا. کہا ان سے سفیان نے، ان سے میسرہ نے. ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے .  آیت «كنتم خير أمة أخرجت للناس‏» ”تم لوگ لوگوں کے لیے سب لوگوں سے بہتر ہو“ اور کہا ان کو گردنوں میں زنجیریں ڈال کر ( لڑائی میں گرفتار کر کے ) لاتے ہو پھر وہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4556 in Urdu

مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا. ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا. ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے. کہ   کچھ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے قبیلہ کے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے. جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا. اگر تم میں سے کوئی زنا کرے تو تم اس کو کیا سزا دیتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس کا منہ کالا کر کے اسے مارتے پیٹتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا توریت میں رجم کا حکم نہیں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے توریت میں رجم کا حکم نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بولے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو،
توریت لاؤ اور اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔ ( جب توریت لائی گئی ) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے جو انہیں توریت کا درس دیا کرتا تھا. آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی عبارت پڑھنے لگا. اور آیت رجم نہیں پڑھتا تھا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا. اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جب یہودیوں نے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے، رجم کر دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس عورت کا ساتھی عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھک جھک پڑتا تھا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4555 in Urdu

ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ثمامہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   پھر ابوطلحہ نے وہ باغ حسان اور ابی رضی اللہ عنہما کو دے دیا تھا۔ میں ان دونوں سے ان کا زیادہ قریبی تھا لیکن مجھے نہیں دیا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4554 in Urdu

ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا. ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے. انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا. انہوں نے بیان کیا. کہ   مدینہ میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے درخت تھے. اور بیرحاء کا باغ اپنی تمام جائیداد میں انہیں سب سے زیادہ عزیز تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں تشریف لے جاتے اور اس کے میٹھے اور عمدہ پانی کو پیتے، پھر جب آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» ”جب تک تم اپنی عزیز ترین چیزوں کو نہ خرچ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے۔
“ نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک تم اپنی عزیز چیزوں کو خرچ نہ کرو گے نیکی کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکو گے اور میرا سب سے زیادہ عزیز مال بیرحاء ہے اور یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اللہ ہی سے میں اس کے ثواب و اجر کی توقع رکھتا ہوں، پس یا رسول اللہ! جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوب یہ فانی ہی دولت تھی، یہ فانی ہی دولت تھی۔
جو کچھ تم نے کہا ہے وہ میں نے سن لیا اور میرا خیال ہے کہ تم اپنے عزیز و اقرباء کو اسے دے دو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ایسا ہی کروں گا، یا رسول اللہ! چنانچہ انہوں نے وہ باغ اپنے عزیزوں اور اپنے ناطہٰ والوں میں بانٹ دیا۔ عبداللہ بن یوسف اور روح بن عبادہ نے «ذلك مال رايح» ( «ربح» سے ) بیان کیا ہے۔ یعنی یہ مال بہت نفع دینے والا ہے۔ مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے «مال رايح» ( «رواح» سے ) پڑھا تھا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4553 in Urdu

ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے معمر نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، ان سے امام زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے منہ در منہ بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ   جس مدت میں میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح ( صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے مطابق ) تھی، میں ( سفر تجارت پر شام میں ) گیا ہوا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کے پاس پہنچا۔ انہوں نے بیان کیا کہ دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ وہ خط لائے تھے اور عظیم بصریٰ کے حوالے کر دیا تھا اور ہرقل کے پاس اسی سے پہنچا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہرقل نے پوچھا کیا ہمارے حدود سلطنت میں اس شخص کی قوم کے بھی کچھ لوگ ہیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے؟ درباریوں نے بتایا کہ جی ہاں موجود ہیں۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر مجھے قریش کے چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلایا گیا۔ ہم ہرقل کے دربار میں داخل ہوئے اور اس کے سامنے ہمیں بٹھا دیا گیا۔ اس نے پوچھا، تم لوگوں میں اس شخص سے زیادہ قریبی کون ہے جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ میں زیادہ قریب ہوں۔ اب درباریوں نے مجھے بادشاہ کے بالکل قریب بٹھا دیا اور میرے دوسرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھا دیا۔ اس کے بعد ترجمان کو بلایا اور اس سے ہرقل نے کہا کہ انہیں بتاؤ کہ میں اس شخص کے بارے میں تم سے کچھ سوالات کروں گا، جو نبی ہونے کا دعویدار ہے، اگر یہ ( یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ ) جھوٹ بولے تو تم اس کے جھوٹ کو ظاہر کر دینا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اللہ کی قسم! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ میرے ساتھی کہیں میرے متعلق جھوٹ بولنا نقل نہ کر دیں تو میں ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ) ضرور جھوٹ بولتا۔ پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ جس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے نسب میں کیسے ہیں؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ان کا نسب ہم میں بہت ہی عزت والا ہے۔ اس نے پوچھا کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ بیان کیا کہ میں نے کہا، نہیں۔ اس نے پوچھا، تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے کبھی ان پر جھوٹ کی تہمت لگائی تھی؟ میں نے کہا نہیں۔ پوچھا ان کی پیروی معزز لوگ زیادہ کرتے ہیں یا کمزور؟ میں نے کہا کہ قوم کے کمزور لوگ زیادہ ہیں۔ اس نے پوچھا، ان کے ماننے والوں میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یا کمی؟ میں نے کہا کہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا کبھی ایسا بھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ کوئی شخص ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر ان سے پھر گیا ہو؟ میں نے کہا ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اس نے پوچھا، تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا، تمہاری ان کے ساتھ جنگ کا کیا نتیجہ رہا؟ میں نے کہا کہ ہماری جنگ کی مثال ایک ڈول کی ہے کہ کبھی ان کے ہاتھ میں اور کبھی ہمارے ہاتھ میں۔ اس نے پوچھا، کبھی انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی دھوکا بھی کیا؟ میں نے کہا کہ اب تک تو نہیں کیا، لیکن آج کل بھی ہمارا ان سے ایک معاہدہ چل رہا ہے، نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں ان کا طرز عمل کیا رہے گا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! اس جملہ کے سوا اور کوئی بات میں اس پوری گفتگو میں اپنی طرف سے نہیں ملا سکا، پھر اس نے پوچھا اس سے پہلے بھی یہ دعویٰ تمہارے یہاں کسی نے کیا تھا؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا، اس سے کہو کہ میں نے تم سے نبی کے نسب کے بارے میں پوچھا تو تم نے بتایا کہ وہ تم لوگوں میں باعزت اور اونچے نسب کے سمجھے جاتے ہیں، انبیاء کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی بعثت ہمیشہ قوم کے صاحب حسب و نسب خاندان میں ہوتی ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا کوئی ان کے باپ دادوں میں بادشاہ گزرا ہے، تو تم نے اس کا انکار کیا میں اس سے اس فیصلہ پر پہنچا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اپنی خاندانی سلطنت کو اس طرح واپس لینا چاہتے ہوں اور میں نے تم سے ان کی اتباع کرنے والوں کے متعلق پوچھا کہ آیا وہ قوم کے کمزور لوگ ہیں یا اشراف، تو تم نے بتایا کہ کمزور لوگ ان کی پیروی کرنے والوں میں ( زیادہ ) ہیں۔ یہی طبقہ ہمیشہ سے انبیاء کی اتباع کرتا رہا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے دعویٰ نبوت سے پہلے ان پر جھوٹ کا کبھی شبہ کیا تھا، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ میں نے اس سے یہ سمجھا کہ جس شخص نے لوگوں کے معاملہ میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو، وہ اللہ کے معاملے میں کس طرح جھوٹ بول دے گا اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے دین کو قبول کرنے کے بعد پھر ان سے بدگمان ہو کر کوئی شخص ان کے دین سے کبھی پھرا بھی ہے، تو تم نے اس کا بھی انکار کیا۔ ایمان کا یہی اثر ہوتا ہے جب وہ دل کی گہرائیوں میں اتر جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے یا کم ہوتی ہے، تو تم نے بتایا کہ ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے، ایمان کا یہی معاملہ ہے، یہاں تک کہ وہ کمال کو پہنچ جائے۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تم نے کبھی ان سے جنگ بھی کی ہے؟ تو تم نے بتایا کہ جنگ کی ہے اور تمہارے درمیان لڑائی کا نتیجہ ایسا رہا ہے کہ کبھی تمہارے حق میں اور کبھی ان کے حق میں۔ انبیاء کا بھی یہی معاملہ ہے، انہیں آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آخر انجام انہیں کے حق میں ہوتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس نے تمہارے ساتھ کبھی خلاف عہد بھی معاملہ کیا ہے تو تم نے اس سے بھی انکار کیا۔ انبیاء کبھی عہد کے خلاف نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کیا تمہارے یہاں اس طرح کا دعویٰ پہلے بھی کسی نے کیا تھا تو تم نے کہا کہ پہلے کسی نے اس طرح کا دعویٰ نہیں کیا، میں اس سے اس فیصلے پر پہنچا کہ اگر کسی نے تمہارے یہاں اس سے پہلے اس طرح کا دعویٰ کیا ہوتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہ بھی اسی کی نقل کر رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر ہرقل نے پوچھا وہ تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی اور پاکدامنی کا۔ آخر اس نے کہا کہ جو کچھ تم نے بتایا ہے اگر وہ صحیح ہے تو یقیناً وہ نبی ہیں اس کا علم تو مجھے بھی تھا کہ ان کی نبوت کا زمانہ قریب ہے لیکن یہ خیال نہ تھا کہ وہ تمہاری قوم میں ہوں گے۔ اگر مجھے ان تک پہنچ سکنے کا یقین ہوتا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرتا اور اگر میں ان کی خدمت میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھوتا اور ان کی حکومت میرے ان دو قدموں تک پہنچ کر رہے گی۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اسے پڑھا، اس میں یہ لکھا ہوا تھا، اللہ، رحمن، رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم روم ہرقل کی طرف، سلامتی ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ امابعد! میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں، اسلام لاؤ تو سلامتی پاؤ گے اور اسلام لاؤ تو اللہ تمہیں دوہرا اجر دے گا۔ لیکن تم نے اگر منہ موڑا تو تمہاری رعایا ( کے کفر کا بار بھی سب ) تم پر ہو گا اور اے کتاب والو! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم میں اور تم میں برابر ہے، وہ یہ کہ ہم سوائے اللہ کے اور کسی کی عبادت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان «اشهدوا بأنا مسلمون‏» تک جب ہرقل خط پڑھ چکا تو دربار میں بڑا شور برپا ہو گیا اور پھر ہمیں دربار سے باہر کر دیا گیا۔ باہر آ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ ملک بنی الاصفر ( ہرقل ) بھی ان سے ڈرنے لگا۔ اس واقعہ کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ کر رہیں گے اور آخر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی روشنی میرے دل میں بھی ڈال ہی دی۔ زہری نے کہا کہ پھر ہرقل نے روم کے سرداروں کو بلا کر ایک خاص کمرے میں جمع کیا، پھر ان سے کہا اے رومیو! کیا تم ہمیشہ کے لیے اپنی فلاح اور بھلائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارا ملک تمہارے ہی ہاتھ میں رہے ( اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اسلام قبول کر لو ) راوی نے بیان کیا کہ یہ سنتے ہی وہ سب وحشی جانوروں کی طرح دروازے کی طرف بھاگے، دیکھا تو دروازہ بند تھا، پھر ہرقل نے سب کو اپنے پاس بلایا کہ انہیں میرے پاس لاؤ اور ان سے کہا کہ میں نے تو تمہیں آزمایا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو، اب میں نے اس چیز کا مشاہدہ کر لیا جو مجھے پسند تھی۔ چنانچہ سب درباریوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4552 in Urdu

ہم سے نصر بن علی بن نصر نے بیان کیا. کہا ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا. ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے. کہ   دو عورتیں کسی گھر یا حجرہ میں بیٹھ کر موزے بنایا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک عورت باہر نکلی اس کے ہاتھ میں موزے سینے کا سوا چبھو دیا گیا تھا۔ اس نے دوسری عورت پر دعویٰ کیا۔ یہ مقدمہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے کہا. کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا
کہ اگر صرف دعویٰ کی وجہ سے لوگوں کا مطالبہ مان لیا جانے لگے. تو بہت سوں کا خون اور مال برباد ہو جائے گا۔ جب گواہ نہیں ہے تو دوسری عورت کو جس پر یہ الزام ہے، اللہ سے ڈراؤ اور اس کے سامنے یہ آیت پڑھو «إن الذين يشترون بعهد الله‏» چنانچہ جب لوگوں نے اسے اللہ سے ڈرایا تو اس نے اقرار کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، قسم مدعیٰ علیہ پر ہے۔ اگر وہ جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کرے گا تو اس کو اس وعید کا مصداق قرار دیا جائے گا جو آیت میں بیان کی گئی ہے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4551 in Urdu

ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا، انہوں نے ہشیم سے سنا. انہوں نے کہا ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی. انہیں ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے. کہ   ایک شخص نے بازار میں سامان بیچتے ہوئے قسم کھائی. کہ فلاں شخص اس سامان کا اتنا روپیہ دے رہا تھا. حالانکہ کسی نے اتنی قیمت نہیں لگائی تھی، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح کسی مسلمان کو وہ دھوکا دے کر اسے ٹھگ لے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا‏» کہ ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں۔“ آخر آیت تک۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 4550 in Urdu

ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا. ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا. کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے. اس لیے قسم کھائی کہ کسی مسلمان کا مال ( جھوٹ بول کر وہ ). مار لے تو جب وہ اللہ سے ملے گا. اللہ تعالیٰ اس پر نہایت ہی غصہ ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ نے. آپ کے اس فرمان کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی .«إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة» ”بیشک جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔“
آخر آیت تک۔ ابووائل نے بیان کیا . کہ اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور پوچھا: ابوعبدالرحمٰن ( عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) نے آپ لوگوں سے کوئی حدیث بیان کی ہے؟ ہم نے بتایا کہ ہاں، اس اس طرح سے حدیث بیان کی ہے۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا ( ہم دونوں کا اس بارے میں جھگڑا ہوا
اور مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو ). آپ نے مجھ سے فرمایا کہ تو گواہ پیش کر یا پھر اس کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ میں نے کہا پھر تو یا رسول اللہ وہ ( جھوٹی ) قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹی قسم اس لیے کھائے. کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال لے اور اس کی نیت بری ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس پر نہایت ہی غضبناک ہو گا۔

Read more