Tag Archive for: Sahih Bukhari

Sahih Bukhari Hadith No 1470 in Urdu

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے ‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے ( پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1469 in Urdu

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاء بن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ   انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال و دولت ہو تو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بےنیاز بنا دیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبر و استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بےپایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے ) ۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1468 in Urdu

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنا دیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ «هي عليه ومثلها معها» ( صدقہ کے لفظ کے بغیر ) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1467 in Urdu

ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدہ نے ‘ ان سے ہشام نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے ‘ ان سے زینب بنت ام سلمہ نے ‘ ان سے ام سلمہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ   میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! اگر میں ابوسلمہ ( اپنے پہلے خاوند ) کے بیٹوں پر خرچ کروں تو درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان پر خرچ کر۔ تو جو کچھ بھی ان پر خرچ کرے گی اس کا ثواب تجھ کو ملے گا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1466 in Urdu

ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمرو بن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے۔ (اعمش نے) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمرو بن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی (جس طرح شقیق نے کی کہ) زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ   میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور چند یتیموں پر بھی جو ان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم خود جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ ( جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں ) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کر دوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بیشک درست ہے۔ اور انہیں دو گنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1465 in Urdu

ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ہشام دستوائی نے ‘ یحییٰ سے بیان کیا۔ ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا ‘ اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی اور اس کی زیبائش و آرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس لیے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی۔ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات پوچھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بات نہیں کرتے۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ صاف کیا ( جو وحی نازل ہوتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے لگتا تھا ) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ( سوال کی ) تعریف کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی ( مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے ) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہیں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں۔ البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کوکھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کر کے پاخانہ پیشاب کر دیتا ہے اور پھر چرتا ہے۔ اسی طرح یہ مال و دولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے۔ اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین ‘ یتیم اور مسافر کو دیا جائے۔ یا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہاں اگر کوئی شخص زکوٰۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہو گا۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1464 in Urdu

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے خثیم بن عراک بن مالک نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے (دوسری سند) اور ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خثیم بن عراک بن مالک نے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ فرض ہے اور نہ گھوڑے میں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1463 in Urdu

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سنا ‘ ان سے عراک بن مالک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا   مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ واجب نہیں۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1462 in Urdu

ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر ( نماز کے بعد ) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا: لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب ( کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں ) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ( میرے خاوند ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان ( مسکینوں ) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طور پر دو گی۔ ( معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں ) ۔

Read more

Sahih Bukhari Hadith No 1461 in Urdu

ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ   ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» یعنی ”تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔“ یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( «رابح» کے بجائے ) «رائح» نقل کیا ہے۔

Read more