Sahih Bukhari Hadith No 57 in Urdu
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
عامر بن سعد نے سعد بن ابی وقاص سے بیان کیا، انہوں نے ان کو خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔
عبداللہ بن یزید سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمل نیت ہی سے صحیح ہوتے ہیں ( یا نیت ہی کے مطابق ان کا بدلا ملتا ہے ) اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے گا۔ پس جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لیے ہجرت کرے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہو گی اور جو کوئی دنیا کمانے کے لیے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت کرے گا تو اس کی ہجرت ان ہی کاموں کے لیے ہو گی۔
ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہوں نے ابوجمرہ سے نقل کیا کہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا کرتا تھا وہ مجھ کو خاص اپنے تخت پر بٹھاتے ( ایک دفعہ ) کہنے لگے کہ تم میرے پاس مستقل طور پر رہ جاؤ میں اپنے مال میں سے تمہارا حصہ مقرر کر دوں گا۔ تو میں دو ماہ تک ان کی خدمت میں رہ گیا۔ پھر کہنے لگے کہ عبدالقیس کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کون سی قوم کے لوگ ہیں یا یہ وفد کہاں کا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ربیعہ خاندان کے لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرحبا اس قوم کو یا اس وفد کو نہ ذلیل ہونے والے نہ شرمندہ ہونے والے ( یعنی ان کا آنا بہت خوب ہے ) وہ کہنے لگے اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں صرف ان حرمت والے مہینوں میں آ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کافروں کا قبیلہ آباد ہے۔ پس آپ ہم کو ایک ایسی قطعی بات بتلا دیجئیے جس کی خبر ہم اپنے پچھلے لوگوں کو بھی کر دیں جو یہاں نہیں آئے اور اس پر عمل درآمد کر کے ہم جنت میں داخل ہو جائیں اور انہوں نے آپ سے اپنے برتنوں کے بارے میں بھی پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا۔ ان کو حکم دیا کہ ایک اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ جانتے ہو ایک اکیلے اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی کو معلوم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی مبعود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت سے جو ملے اس کا پانچواں حصہ ( مسلمانوں کے بیت المال میں ) داخل کرنا اور چار برتنوں کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا۔ سبز لاکھی مرتبان سے اور کدو کے بنائے ہوئے برتن سے، لکڑی کے کھودے ہوئے برتن سے، اور روغنی برتن سے اور فرمایا کہ ان باتوں کو حفظ کر لو اور ان لوگوں کو بھی بتلا دینا جو تم سے پیچھے ہیں اور یہاں نہیں آئے ہیں۔
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے، انہوں نے عامر سے، کہا میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو ( شاہی محفوظ ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ( اور شاہی مجرم قرار پائے ) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ ( پس ان سے بچو اور ) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔
ابوسفیان بن حرب نے کہ ہرقل ( روم کے بادشاہ ) نے ان سے کہا۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس رسول کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں۔ تو نے جواب میں بتلایا کہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ ( ٹھیک ہے ) ایمان کا یہی حال رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورا ہو جائے اور میں نے تجھ سے پوچھا تھا کہ کوئی اس کے دین میں آ کر پھر اس کو برا جان کر پھر جاتا ہے؟ تو نے کہا۔ نہیں، اور ایمان کا یہی حال ہے۔ جب اس کی خوشی دل میں سما جاتی ہے تو پھر اس کو کوئی برا نہیں سمجھ سکتا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےسے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس ( اللہ ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ تو سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا ( البتہ ) میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے ( دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے ) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ( یاد رکھو ) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی ( آخر آیت تک ) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرائیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔
عبادہ بن صامت سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے ( وہ کون سی رات ہے ) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھا لی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ ( تو اب ایسا کرو کہ ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہو جاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔
